ایک بات، وہ یہ کہ ماہِ میر کسی بھی طرح میر تقی میرؔ کی بائیو پکچر نہیں ہے ۔۔۔۔
یہ تو ٹربیوٹ ہے میرؔ کے “ماہ تاب ” کو ۔۔۔۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
___________________
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
ؔاگرچہ گوشہ گزیں ھُوں میں شاعروں میں، میر”
“یہ میرے شور نے روُئے زمیں تمام لیا
میر تقی میرؔ ۔۔۔۔۔ ریختہ کا دیوتا جس نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔۔۔۔۔
میرؔ کی شاعری میں جو تشبیہیں اور استعارے استعمال کئے گئے ہیں وہ اتنے پرکشش ہیں کہ دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موسیقیت ہے اور ان کا نرم لہجہ درد سے نڈھال انسان کو تھپکیاں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں خود کلامی پائی جاتی ہے۔ گویا شاعر خود سے باتیں کر رہا ہو۔اور اُنہی باتوں کو اُسی خود کلامی کو سرمد صہبائی نے انجم شہزاد کے ساتھ ملکر آج کے دور سے ہم آہنگ بنا دیا۔۔۔۔۔
ایسا اسکرپٹ اور ایسے اسکرپٹ پر سوچنا “سرمد صہبائی” کے ذہن کا کمال ہے ۔۔۔۔ اور سرمد صہبائی کے ساتھ انجم شہزاد جیسا ڈائرایکٹر ہی اِن لفظوں کو پردہِ سیمی پر جان دے سکتا ہے۔۔۔۔
اور اِ ن دونوں نے ملکر ثابت کر دیا کہ “فلم ڈائرایکٹرز میڈیم ہے” ۔۔۔۔
آج جب کمرشل سینما کے لئے فلمز بن رہی ہیں توایسے وقت میں 180 ڈگری کا کراس دے کر عام ناظر کے مزاج سے ہٹ کر خاص الخاص لوگوں کی فلم ہے ” ماہِ میر“۔۔۔۔۔۔
یہ ریوڑ کی فلم نہیں ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے ریوڑ کو سمجھ بھی نہیں آنی۔۔۔۔۔ یہ اُس چرواہے کی فلم ہے جو اپنے بکھرے ریوڑ کو اپنے راستے پر لانا جانتا ہے۔۔۔۔۔
کہانی:۔
سینما اور کہانی کے گم شدہ رشتہ کو اپنے مکالموں میں ادبی مباحثے،آج کی الجھنیں، دکھاوے کا ادھوراپن ،تخلیق اورتخلیق کارکے اضطراب کو لفظوں میں پرونا اور کرداروں کو کلاسک سینماکے ساتھ جوڑنا سرمد صہبائی نے نہایت کامیابی سے مکمل کیا ہے۔۔۔۔
انٹرول سے پہلے کہانی پر گرپ تھوڑی اور کی جاتی توکافی بہتر رہتا
کردار نگاری:۔
میرے لئے “ فہد مصطفی ” کبھی بھی ایکٹر نہیں رہا وہ ہمیشہ سے “پرفارمر ” ہے ۔۔۔۔ چھوٹے پردے سے بڑے پردے تک کا سفر اُس نے کامیابی سے طہ کیا ہے۔۔۔۔ پورے چاند کی وحشت جو میرؔ کو دربار سے جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر لے آئی وہ فہد مصطفی کو فن کی بلندی پر لے گئی ۔۔۔۔۔
منظر صہبائی اِس فلم کی اصل جان ہیں ۔۔۔۔ شاعری کا اتار چڑھاو،، آواز کا زیروبم ،کردار کا مینرازم کوئی منظر سے سیکھے ۔۔۔۔
جو وحشت ڈاکٹر کلیم کے ہاں “ میرؔ ” سے آئی تھی ۔۔۔۔ وہی وحشت اُنہیں “جمال” کے اضطراب میں نظر آئی۔۔۔۔۔
صنم سعید آج کی اُس عورت کی عکاسی کرتی دکھائی دی جسے لوگوں میں رہنے کا فن آتا ہےاور قدردانوں کو کارڈز کی طرح استعمال کرنا بھی۔۔۔۔ جو میٹھے لہجے میں پیٹھ پر وار کرتی ہے اور سامنے آ کرمرہم رکھتی ہے۔۔۔۔
ایک کیلکولیٹڈ ، کانفیڈینٹ، دوغلی عورت۔۔۔۔۔
علی خان نواب کے انداز میں ویسے ہی رہے جیسے وہ اپنے باقی کے کرداروں کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔۔ یعنی حسبِ عادت وہی ایک ہی بناوٹی انداز۔۔۔۔۔
خوبصورت دلکش ایمان علی ایک مکمل “خاموش فلم” کا میٹریل ہے۔۔۔۔ ایمان علی کا خاموش حسن فلم میں کہیں کہیں بولتا محسوس ہوتا ہے اور جب وہ خود بولتی ہے تو یکسانیت سے بھرپورمصنوعی اداکاری کا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔
زہرہ ہما نواب ذرا دیر کو آئیں اور اپنے کردار سے انمٹ نقوش کے ساتھ ڈاکٹر کلیم کا میرؔ سے لگاؤ اوراُن کے رکھ رکھاؤ میں چھپی بے بسی اور پورے چاند کی وحشت کا سبب بتا گئیں۔۔۔۔۔
پارس مسرور اچھا اضافہ ہے۔۔۔۔ چائلڈ آرٹسٹ فضل حسین نے بھی اپنا حق ادا کیا۔۔۔۔ راشد فاروقی۔ بختیار احمد اور دیگر اداکاروں نے اپنا کام بخوبی نبھایا۔۔۔۔۔
میرؔ کی غزلوں نے اور سرمد صہبائی کی اپنی شاعری نے فلم کی کہانی میں جمالیات کے رنگ مزید گہرے کردیے ۔۔۔۔۔
مصروفیت بھرے دن رات لئے کراچی کا فضائی منظر، سمندر کا شور۔ ہجوم میں تنہا فرد کو خوبصورتی سے عکس بند کیا گیا ۔۔سینماٹوگرافی اعلی۔۔۔۔ فلم کی ایڈیٹنگ بخوبی اپنے کام سے واضح دکھائی دی۔۔۔
فلم میں کہیں کہیں آتے سب ٹائٹل مکمل مزا دیتے نظر نہیں آئے۔۔۔۔ اور گانوں میں تو اُن کی سمجھ ہی نہیں آئی۔۔۔۔
گرافکس شدہ چاند نے بھی کمال عمدگی سے اپنا حق ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں کہنا یہ ہے کہ یہ فلم کمرشل پوائینٹ آف ویو سے عام ناظر کو بھائے نہ بھائے۔۔۔ آنے والے دنوں میں جب بھی پاکستان کے جدید سینما پر بات ہوگی “ماہِ میر” کے بنا نامکمل ہو گی۔۔۔۔
بنتِ ارسلان کا قلم کاری